صدر لاہور چیمبر سے ڈی آئی جی موٹرویز کی ملاقات

Media Network Pakistan

لاہور(ایم این پی) ڈی آئی جی نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس سید فرید علی نے کہا ہے کہ کلر کہار حادثے کے بعد قواعد و ضوابط مزید سخت کردئیے گئے ہیں جبکہ پبلک سروس وہیکلز کی جانب سے قوانین کی خلاف ورزی کی سختی سے روک تھام کی جارہی ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار لاہور چیمبر کے صدر کاشف انور سے لاہور چیمبر میں ملاقات کے موقع پر کیا۔ سینئر نائب صدر ظفر محمود چودھری اور پاکستان گڈز ٹرانسپورٹ کے نمائندے بھی اس موقع پر موجود تھے۔ سید فرید علی نے کہا کہ ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس کا کام قوانین کا نفاذیقینی بنانا ہے، رولز میں فیڈ بیک دیتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ موٹروے پر ویئرہاﺅس جلد ہی بنائے جائیں گے۔ اس وقت یہ کیا جارہا ہے کہ گاڑی اگلے شہر میں ایگزٹ لیکر اگلے شہر میں اپنا سامان ان لوڈ کرے۔ انہوں نے کہا کہ 80فیصد ٹرک چھوٹے ہیں اور ان میں ایسے بھی ٹرک ہیں جو بننا بند ہوچکے ہیں لیکن یہاں چل رہے ہیںجو ایک بڑا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا یہ تجویز اچھی ہے کہ باڈی کے لیے سپیسیفیکیشن مقرر کرلی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں وہیکلز فٹنس کا اچھا سسٹم ہے ۔ موٹروے پولیس نے پنجاب حکومت سے ایم او یو کیا ہے کہ وہیکلز فٹنس کا ڈیٹا شیئر کیا جائے۔ انہوں نے کہا موٹروے پولیس کی کوشش ہوتی ہے کہ اچھے طریقے سے معاملات حل کریں۔ ٹھوکر اور راوی پر زیادہ ٹریفک کی وجہ سے سٹاف کی تعداد بڑھادی ہے۔ لاہور چیمبر کے صدر کاشف انور نے کہا کہ نئے ٹرکوں کی خریداری کے لیے آسان اقساط اور دو سے تین فیصد مارک اپ پر قرض دئیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی وجہ سے حادثات ،اموات اور مالی نقصان ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جرمانے کی شرح کو بڑھا دیا جائے لیکن ایف آئی آر نہ کی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹر وے پولیس ایک مثالی ادارہ ہے۔ ستمبر 2020میں لاہور چیمبر نے نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹر وے پولیس کے ساتھ مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے تھے۔ لاہور چیمبر کے صدر نے کہا کہ نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹر وے پولیس نے ہائی کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد کرتے ہوئے 15نومبر 2023سے ہائی وے سیفٹی آرڈیننس 2000پر سختی سے عمل درآمد شروع کردیا ہے جو خوش آئند ہے کیونکہ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی وجہ سے پاکستاکستان کی قومی شاہراہوں کی دیکھ بھال میں مشکلات پیش آرہی تھی جبکہ ٹرکوں اور ٹرالرز پر اضافی لوڈ کی وجہ سے بہت سے حادثات رونما ہوئے جن میں ہزاروں افراد جاں بحق ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے بزنس کمیونٹی کو کچھ مشکلات کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایکسل لوڈ کو 90 ٹن سے کم کرکے 60 ٹن کرنے سے کاروباری لاگت بڑھے گی۔ یہ قانون مرحلہ وار نافذ کیا جائے یعنی 90 ٹن سے کم کرکے 80 ٹن اور کچھ مہینوں کے بعد مزید کم کرکے 70 ٹن کردیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مال بردار یا لوڈر گاڑیوں کا وزن سٹرکچر ماڈیفیکیشن کی وجہ سے انٹرنیشنل سٹینڈرڈ سے زیادہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے باڈی ویٹ اور سامان کے لوڈ میں بہت فرق آجاتا ہے۔اس بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ویٹ سٹیشن یا کانٹے کا نظام دوبارہ موٹروے پولیس سنبھال لیا جائے اور یہ ہر ضلع کے انٹری پرائنٹ پر قائم کیے جائیں تاکہ اضافی سامان آف لوڈ ہونے کا خدشہ نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ سندھ سے لوڈر گاڑیاں ایکسل لوڈ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بغیر کسی رکاوٹ کے پنجاب میں داخل ہوجاتی ہے ، لیکن بعد میں ان پر سخت چیکنگ شروع ہوجاتی ہے لہذا پورے پاکستان میں ایکسل لوڈ کا یکساں نظام نافذ کیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں