سٹیٹ بینک امپورٹس کے لیے واضح پالیسی دے: لاہور چیمبر

Media Network Pakistan

لاہور (ایم این پی) آٹواسیسریز، پلاسٹک اور ربر آٹوپارٹس اور منسلک سیکٹرز کے لیے سٹیٹ بینک امپورٹ کے لیے واضح پالیسی دے، ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے لوکل مینوفیکچرنگ سیکٹر مضبوط ہونا بہت ضروری ہے، اس وقت یوں لگتا ہے کہ امپورٹ مکمل طور پر بند کردی گئی ہے جس سے ایکسپورٹ بڑھانا ممکن نہیں رہا۔ ان خیالات کا اظہار لاہور چیمبر کے سینئر نائب صدر ظفر محمود چودھری، مجلس قائمہ برائے آٹواسیسریز، پلاسٹک اور ربر آٹوپارٹس کے کنوینروقار علی، معاون کنوینرز ایم اعجاز مشتاق اور سید احمد بخاری نے مجلس قائمہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ قائمہ کمیٹی کے دیگر ممبران بھی اس موقع پر موجود تھے۔ اجلاس کے شرکاءنے کہا کہ اس سیکٹر کی ترقی کے لیے خصوصی اقدامات اٹھانا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر سال نومبر میں شنگھائی میں آٹومکینک فیئر لگتا ہے ۔ اس شعبہ سے وابستہ لوگ چاہتے ہیں کہ اس فیئر میں شرکت کے لیے لاہور چیمبر معاونت کرے۔ لاہور چیمبر کے سینئر نائب صدر ظفر محمود چودھری نے کہا کہ مالی سال 2021-22میں پاکستان کی کل امپورٹس 80ارب ڈالر سے زائد جبکہ ایکسپورٹس 32.4ارب ڈالر تھیں ۔ مالی سال 2022-23میں امپورٹس کم ہوکر 55.9ارب ڈالر اور ایکسپورٹس 27ارب ڈالر ہوگئیں۔ 2021سے اب تک ہماری امپورٹس 31فیصد تک کم ہوچکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم صرف امپورٹ کے لیے بیرونی شپنگ کمپنیوں کو پچھلے سال کے دوران 7ارب ڈالر ادا کرچکے ہیں کیونکہ پاکستان کی کوئی بھی اپنی شپنگ کمپنی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک ریسرچ صنعتکاری میں سات فیصد کمی ہوئی ہے جبکہ سمال سکیل انڈسٹری میں چار فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔2021ءمیں ہماری ترسیلات زر31ارب ڈالر تھیں جو 2022023ءمیں 26ارب ڈالر رہ گئیں۔ مجموعی طور پر ہماری ایکسپورٹس اور ترسیلات زر کو ملاکر ہم 55ارب ڈالر آمدنی والا ملک ہیں اور ہمیں ان ہی پیسوں میں اپنے ملک کے نظام کو چلانا ہوگا۔ لاہور چیمبر کے سینئر نائب صدر نے کہا کہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہماری فارن ڈائریکٹر انویسٹمنٹ کا مارک اپ بھی بیرون ملک جارہا ہے۔ ہم صرف نجی ٹریول کی مد میں فی کس تقریبا 700ڈالر بیرونی ایئر لائنز کو ادا کررہے ہیں جبکہ پی آئی اے کا ٹوٹل ٹرانزیکشن بیرونی ٹریول کا صرف 6فیصد ہے۔ اس وقت حکومت اس بات پر بھرپور توجہ دے رہی ہے کہ ہم اپنے امپورٹ ٹارگٹس کو مکمل کرلیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا فوکس ایکسپورٹس پر ہونا چاہیے۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ منفی کردار بینکوں کا ہے جو سٹیٹ بینک کی کسی بھی واضح پالیسی کے بغیر لوگوں کی ایل سیز اور کانٹریکٹس روک لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمارے پاس زرمبادلہ کے ذخائر میں 4.37ارب ڈالر موجود ہیں اور کمرشل بینکوں کے پاس تقریبا 5.23ارب ڈالر ہیں جو ملاکر 9ارب ڈالر کے لگ بھگ بنتے ہیں۔ ہمیں رواں مالی سال میں 7338ارب روپے صرف سود ادا کرنا ہے۔ ہم تقریبا 100ارب روپے سبسڈیز کی مد میں ادا کررہے ہیں ۔ نقصان دہ ادارے مثلا پی آئی اے، سٹیل ملز، ڈسکوز سمیت 20کے قریب اداروں کو یہ پیسہ دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لاہور چیمبر ٹریڈرز کو ہر طرح سے سپورٹ کرے گااور ہر طرح سے ان کی آواز بنے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں