!
یہ جنون عشق کی داستاں، انھیں حرف حرف سناپیا!
مرے چارہ گر ،میںہوںدر بدر ،میںتو تھک گئی،ہے عجب سفر
مری بے نشاں سی ہیں منزلیں،مجھے راستہ بھی دکھا پیا!
نہ حدود میں ،نہ قیود میں،مرا دل ترے ہی وجود میں
یہ سجود کا حسیں پیرِھن میری روح پر تو سجا پیا!
میںتو آس تھی،میں تو پیاس تھی،کسی پھول کی میں بھی باس تھی
مری پتیاں گریں جا بجا ، انھیں شاخ پر تو سجا پیا!
میںفقیر ہوں،میںحقیر ہوں۔کسی خواب کی نہ اسیر ہوں
میں عزیز ہو ں تو تجھے ہی بس ، سو عزیز تر ہی بنا پیا!
میں فلک سے آئی خطا مری،اسے ڈھونڈناہے وفا مری
یہ جفا کی جو ہیں حقیقتیں،مری آنکھ کو وہ دکھا پیا!
مرے آسماںمرے سا ئباں،تو ہی رازداں ،تو ہی مہرباں
جہاں لا مکاں کے ہیں سلسلے، وہیں میرا گھر بھی بنا پیا!
یہ جو آرزو¿ں کا دیس ہے، یہ جو خاک خاک سا بھیس ہے
جو ازل ابد کا یہ بھید ہے،اسے بھید ہی میں بتا پیا!
یہ قدم قدم پہ بشارتیں، یہ نظر نظر میں زیارتیں
یہ بصارتیں ،یہ بجھارتیں،مرے شہر دل کو دکھا پیا!
یہ جو میرے من میں ہے روشنی،یہی زندگی،یہی بندگی
مری فکر میں ترے ذکر میں جو چراغ ہیں وہ جلا پیا!
ڈاکٹر نجمہ شاہین
غزل یہ جو عشق مسلک کے لوگ ہیں،انھیں رمز سارے سکھا پیا
Media Network Pakistan