پاکستان نے ایک بار پھر اشارہ دیا ہے کہ وہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن کی تکمیل کے لیے کوشاں ہے اور اس حوالے سے اکیاسی کلومیٹر کی پائپ لائن بچھانے کی کوشش کرے گا۔سفارتی ذرائع کے مطابق ایران پاکستان گیس پائپ لائن کے مسئلے پر اسلام آباد اور تہران کے درمیان بات چیت جاری ہے اور ممکنہ طور پر آنے والے چند ہفتوں میں ایرانی ماہرین کی ٹیم پاکستان کا دورہ بھی کرے۔تاہم کئی مبصرین اس پائپ لائن منصوبے کے حوالے سے اب بھی سوالات اٹھا رہے ہیں۔ کچھ کے خیال میں پاکستان کی طرف سے یہ کوشش ہے کہ وہ ایران پاکستان کے مسئلے کو لے کر امریکہ کی توجہ حاصل کرے تاہم کچھ دیگر کے مطابق یہ منصوبہ پاکستان کے لیے انتہائی مثبت ہے۔ایران پہلے ہی پاکستان کے بارڈر تک پائپ لائن بچھا چکا ہے اور اس حوالے سے گزشتہ کئی مہینوں سے پاکستان کے ساتھ بات چیت چل رہی تھی۔ اب پاکستان کو اپنے بارڈر تک پائپ لائن بچھانی ہے اور اس کا اگلا مرحلہ اس پائپ لائن کو نواب شاہ تک لے کے جانا ہے۔اس ذریعے کے مطابق اس حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان بات چیت چل رہی ہے۔ ” اگلے ہفتے یا اگلے چند ہفتوں میں ایرانی ماہرین کا ایک وفد اس م سلسلے میں مزید بات چیت کے لیے پاکستان بھی آئے گا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اعلانات ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو بھی حکومت جا رہی ہوتی ہے وہ اس منصوبے پر کچھ اعلان کر دیتی ہے۔ زرداری صاحب نے اپنے دور حکومت میں جانے سے پہلے اس پر کچھ پیشرفت کی کوشش کی تھی اور اب نگراں حکومت بھی یہی اعلان کررہی ہے۔احسن رضا کے مطابق سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا۔ ”پاکستان کو اگلے مالی سال میں 49 ارب ڈالرز قرضوں کی ادائیگی اور دوسری مد میں چاہیے۔ ایسی صورت میں اس پروجیکٹ کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا۔احسن رضا کا کہنا تھا کہ پاکستان ممکنہ طور پر امریکہ کی توجہ حاصل کرنے کے لیے اس پروجیکٹ پر پیش رفت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ”اگر پاکستان نے اس پروجیکٹ پر کام کرنے کی کوشش کی تو یقینا امریکہ سے تعلقات خراب ہوں گے اور دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھے گی جس کی وجہ سے عوام کی توجہ موجودہ احتجاجی صورتحال سے ہٹ کر اس کشیدگی پر ہو جائے گی۔ایم کیو ایم کی سابق رکن قومی اسمبلی کشور زہرہ اس خیال سے اتفاق کرتی ہیں کہ ہماری طرف سے اس معاملے میں سنجیدگی نہیں ہے۔ ‘ہم اس معاملے میں امریکہ کو ناراض کر سکتے ہیں۔ نگراں حکومت اس پر بس ایک شوشہ چھوڑ کے جا رہی ہے۔کشور زہرہ کے مطابق ابھی تو پاکستان خود اپنے کئی مسائل میں الجھا ہوا ہے۔ ”ابھی تک تو یہ طے نہیں ہو پا رہا کہ وفاقی سطح پہ حکومت کون بنائے گا؟ سیاسی جماعتیں حکومت بنانے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں، تو حکومتی پالیسی اور حکومتی پروجیکٹس تو دور کی بات ہے۔ایران پاکستان پروجیکٹ کافی عرصے سے زیر بحث ہے اور ایک مرحلے پر بھارت بھی اس میں شمولیت اختیار کرنا چاہتا تھا۔ اسی لیے اسے ماضی میں ایران پاکستان انڈیا پائپ لائن کا نام دیا گیا تھا لیکن بعد میں امریکی دبا کے پیش نظر بھارت اس سے نکل گیا تھا۔مارچ 2013 میں اس پروجیکٹ کا افتتاح کیا گیا تھا۔ اس وقت اس منصوبے کی لاگت تقریبا سات اشاریہ پانچ بلین ڈالر تھی۔ پاکستان کو جنوری 2015 تک اپنے حصے کی پائپ لائن بچھانی تھی لیکن فروری 2014 میں اس وقت کے وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے ایران پر بین الاقوامی پابندیوں کے باعث اسے ناقابل عمل قرار دیا تھا۔ایران نے اپنے حصے کی 1150 کلومیٹر لمبی پائپ لائن بچھا دی ہے جبکہ پاکستان کو سات سو اکیاسی کلومیٹر کی پائپ لائن بچھانا ہے۔ اس حوالے سے ایران نے بین الاقوامی اداروں سے بھی قانونی چارہ جوئی کے لیے رابطہ کیا ہے اور اگر پاکستان نے اس سال ستمبر تک اس پروجیکٹ کو مکمل نہیں کیا، تو اس پر ممکنہ طور پر 18 ارب ڈالرز کا جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔اس صورتحال کے پیش نظر کچھ سیاستدان اس منصوبے پر پیشرفت کی خبروں کو انتہائی مثبت قرار دے رہے ہیں۔ سابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم منڈی والا کا کہنا ہے کہ یہ پروجیکٹ پاکستان کے لیے بہت اہم ہے ۔پاکستان میں توانائی کا شدید بحران ہے اور ایران کے علاوہ اس وقت ہمارے پاس کوئی متبادل نہیں ہے۔ ایران پر مختلف طرح کی بین الاقوامی پابندیاں ہیں جس کی وجہ سے امریکہ وقتا فوقتا پاکستان پر اس حوالے سے دبا ڈالتا رہا ہے۔ سلیم ماونڈی والا کا کہنا ہے کہ امریکہ کو اس مسئلے پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ ”جاپان، بھارت اور دنیا کے کئی دوسرے ممالک ایران سے تیل خرید رہے ہیں اور اگر پاکستان ایران سے اپنی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے گیس لیتا ہے تو امریکہ کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے معاشی امور کے ماہر شاہد محمود کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں پاکستان امریکی خواہشات کے خلاف نہیں جا سکتا۔ ایران کے مسئلے پر پاکستان کو امریکی خواہشات کا پاس رکھنا پڑتا ہے۔ پاکستان نے اس مسئلے پر امریکہ اور یورپی یونین کو قائل کیا ہوگا اور ممکنہ طور پر اس میں فنڈنگ چین سے آئے گی۔دو مراحل میں اس پروجیکٹ کو مکمل کرنا پاکستان کی مجبوری ہے۔ کیونکہ مالی اور انتظامی اعتبار سے ایک مرحلے میں اس کو مکمل کرنا آسان نہیں ہے۔
ایران پاکستان گیس پائپ لائن پھر سے ایجنڈے پر کیوں؟
Media Network Pakistan