Media Network Pakistan
لاہور (ایم این پی) وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ حکومت کی انتھک کوششوں سے معیشت مثبت رخ اختیار کر رہی ہے۔ تاجر برادری کا کردار انتہائی اہم ہے۔وہ گورنر ہائوس لاہور میں لاہور چیمبر کی ایگزیکٹو کمیٹی سے خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پر گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمان، وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور لاہور چیمبر کے صدر کاشف انور نے بھی خطاب کیا جبکہ سینئر نائب صدر ظفر محمود چودھری، نائب صدر عدنان خالد بٹ، سابق صدور میاں انجم نثار، شیخ محمد آصف، میاں مصباح الرحمن، محمد علی میاں، شہزاد علی ملک، الماس حیدر ،سیکرٹری خزانہ، سیکرٹری تجارت، سیکرٹری صنعت، سی سی پی او لاہور، ڈی آئی جی آپریشنز لاہور، سی ای او اور ڈی جی ٹی ڈی اے پی، ڈی جی ٹی او، چیئرمین ایف بی آر اور ایل سی سی آئی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے اراکین بھی موجود تھے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ لاہور چیمبر سے ان کا گہرا لگاو¿ ہے کیونکہ وہ اس کے صدر رہے ہیں، تاجروں کو مشکل حالات کا سامنا ہے لیکن حکومت چیزوں کو بہتر بنانے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں بروئے کار لا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ انہوں نے آئی ایم ایف کے منیجنگ ڈائریکٹر کا شکریہ ادا کیا ہے جبکہ امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری پر ہمیں مبارکباد دی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ پچھلی حکومت کی وجہ سے امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات کو دھچکا لگا۔شہباز شریف نے کہا کہ اس حکومت نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کو ہموار کرنے کے لیے دن رات کام کیا ہے۔ گزشتہ پندرہ ماہ کے دوران ہم نے امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو ٹھیک کیا ہے اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی کاوشیں بھی قابل تعریف تھیں۔ یہ سب اجتماعی کوششوں سے ممکن ہوا۔ ہمارا نصب العین ہے کہ ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر مقدم رکھا جائے۔وزیراعظم نے کہا کہ اصل کام تاجروں کے مسائل حل کرنا اور معیشت کو آگے لے جانا ہے۔ پاکستان نے ماضی میں آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل نہیں کیا اس لیے اس نے ہم سے ضمانت مانگی۔ اب اسے سعودی عرب سے 2 بلین ڈالر، متحدہ عرب امارات سے 1 بلین ڈالر اور آئی ایم ایف سے 1.2 بلین ڈالر کے ساتھ نو ماہ کے لیے ریلیف مل گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمارے ذخائر 14 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔ چین نے چار ماہ میں پاکستان کے تجارتی قرضوں میں سے پانچ ارب ڈالر سے زائد کا قرضہ اتار دیا ہے۔ اگر چین یہ کام نہ کرتا تو ہم ڈیفالٹ ہو جاتے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں جو سانس لینے کی جگہ ملی ہے اس کا مقصد اصلاح اور تنظیم نو کرنا ہے۔ وہ ملک جو پٹ سن میں خود کفیل تھا، آج کپاس درآمد کرتا ہے۔ بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل کی برآمدات ہم سے آگے نکل گئی ہیں۔ وہی فیکٹریاں، وہی نظام ہے جو پاکستان میں ہے، لیکن ان کی برآمدات ہم سے زیادہ کیسے ہو گئیں؟ انہوں نے کہا کہ یہ ہماری اجتماعی ناکامی ہے۔ صنعت پاکستان میں کرائے کی آمدنی بن چکی ہے۔ ہم مقابلہ نہیں کرنا چاہتے۔ ہم جدید ٹیکنالوجی نہیں لائے۔ ہمیں تحقیق پر خرچ کرنا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نے بطور وزیر اعلیٰ اپنے دور میں سو ارب روپے صرف فارم ٹو مارکیٹ سڑکوں پر خرچ کیے لیکن کوئی فرق نہیں پڑا۔ انہوں نے کہا کہ 1990 میں نواز شریف معاشی پروگرام لے کر آئے تھے جس سے بڑا فرق پڑا۔وزیراعظم نے کہا کہ منافع کمانا ہر کاروباری کا حق ہے لیکن منافع کمانا کہانی کا اختتام نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے اگلی صنعت اور تحقیق کی طرف جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں بجلی کے نرخ بڑھانا پڑے۔ یہ سرکلر ڈیٹ کی وجہ سے ہے اور یہ آئی ایم ایف کا مطالبہ بھی ہے۔ ہمارے پاس لائن لاسز اور ٹرانسمیشن کے نقصانات ہیں۔ بلنگ کا نظام درہم برہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھی درست ہے کہ ٹیکسز میں اضافہ کیا گیا ہے لیکن اگر لگائے گئے ٹیکس ادا نہ کیے گئے تو اضافی ٹیکس لگانا پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل ریکوری پلان ہے۔ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا راز اسی میں مضمر ہے۔ زراعت کی بحالی سب سے آسان کام ہے۔زوم کے ذریعے اجلاس میں شریک وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ بجٹ سے قبل لاہور چیمبر کے صدر کاشف انور سے تفصیلی ملاقاتیں ہوئیں اور ان کی تجاویز کے…