ویتنام ترقی پذیر ممالک کے لیے بہترین مثال ہے: ظفر محمود چودھری

Media Network Pakistan

لاہور (ایم این پی) ویتنام کے سفیر فونگ ٹائن نگوئن نے کہا ہے کہ تجارت کے حجم کو بڑھانے کے لیے دونوں ممالک کو کاروباری افراد کو سہولیات فراہم کرنے اور متعلقہ معلومات کا تبادلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام آباد اور کراچی میں ویتنام کا سفارت خانہ پاکستان کے تاجروں کی مدد اور سہولیات کی فراہمی کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔وہ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں لاہور چیمبر کے سینئر نائب صدر ظفر محمود چوہدری سے گفتگو کر رہے تھے۔ اس موقع پر ایگزیکٹو کمیٹی کے اراکین بھی موجود تھے۔سفیر نے کہا کہ یہ ان کا لاہور کا پہلا دورہ ہے اور وہ لاہور چیمبر کے ساتھ تین طرح کی چیزیں شیئر کریں گے۔ پہلا، ویتنام کے سفارتی اور اقتصادی تعلقات کی تاریخ، دوم، اقتصادی تعاون کے لیے کیا فریم ورک ہونا چاہیے اور تیسری اور آخری چیز ڈیٹا اور شماریات کے اعداد و شمار اور عمل درآمد کا عمل ہے۔انہوں نے کہا کہ ویتنام اور پاکستان نے گزشتہ سال باہمی تعلقات کی پچاس سالہ تقریبات منائی تھی۔ پاکستان نے ہمیشہ تمام عالمی فورمز پر ویتنام کی حمایت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ہر سال میٹنگز کی صورت میں ایک طریقہ کار موجود ہے۔ سفیر نے کہا کہ ہم ویتنام کے تاجروں کو پاکستان لانا چاہتے ہیں تاکہ لاہور اور پنجاب میں تجارت و سرمایہ کاری کے امکانات کا جائزہ لیا جاسکے۔ سفیر نے بتایا کہ 90 فیصد کاٹن اور 60 فیصد دھاگہ لاہور سے درآمد کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ویت نام پاکستان کو فشریز، چائے، کاغذ، کیمیکل، ادرک اور دیگر مصنوعات بھی برآمد کرتا ہے جو ہماری کل برآمدات کا 0.5 فیصد سے زیادہ نہیں ہیں۔ اسی طرح ویتنام دواسازی، کپاس، چمڑے کی مصنوعات درآمد کرتا ہے جن کا حجم بھی بہت کم ہے۔سفیر نے یہ بھی کہا کہ لاہور چیمبراپنے ہم منصبوں سے ملاقات کے لیے ایک وفد تشکیل دے اور ہم ویتنام میں وزراءاور اعلیٰ حکام سے ملاقاتوں کا بھی اہتمام کر سکتے ہیں۔ہم نے دیکھا ہے کہ پاکستان کو مشکلات کا سامنا ہے اور بندرگاہوں پر کنٹینرز پھنسے ہوئے ہیں لیکن ہمارے پاس اس مسئلے کا حل بھی ہے کیونکہ ہم دونوں فریقوں کے درمیان بارٹر ٹریڈ کا میکنزم تیار کرنے کے لیے کام کر سکتے ہیں۔ جس پرلاہور چیمبر کے سینئر نائب صدر نے اتفاق کیا اور کہا کہ وہ تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرنے کے لیے ویتنام میں تاجروں کے وفد کی ذاتی طور پر قیادت کریں گے۔لاہور چیمبر کے سینئر نائب صدر ظفر محمود چودھری نے کہا کہ ویتنام اور پاکستان دونوں کے درمیان 50 سال سے زیادہ مستحکم سفارتی تعلقات ہیں جو کہ باضابطہ طور پر 1972 میں قائم ہوئے تھے۔ بہترین سفارتی تعلقات کے علاوہ، دونوں ممالک مختلف شعبوں میں تجارتی اور اقتصادی تعاون کے حامل ہیں، 1970 اور 1980 کی دہائی کے وسط میں کمزور معیشتوں میں سے ایک کے طور پر شروع ہونے کے باوجود ویتنام ابھر کر سامنے آیا۔ انہوں نے کہا کہ چند دہائیوں کے دوران ویتنام کی عالمی برآمدات 335 بلین ڈالر جبکہدرآمدات 330 بلین ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں۔ ویتنام کے اقتصادی ماڈل سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے۔ انہوں نے حکومت پاکستان کی جانب سے شروع کیے گئے سیلاب سے متعلق امدادی پروگرام میں 100,000 ڈالر کے تعاون پر ویتنام کا شکریہ ادا کیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ویتنام کے درمیان باہمی تجارت میں اضافہ کا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔ تاہم، انہوں نے دوطرفہ تجارت کو بڑھانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی تجویز دی جو 839 ملین ڈالر کے لگ بھگ ہے۔انہوں نے دوطرفہ تجارت متوازن کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے لیے گئے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کی ویتنام کو برآمدات 2020-21 میں 117 ملین ڈالر سے بڑھ کر 2021-22 میں 261 ملین ڈالر تک پہنچ گئیں۔ اسی عرصے میں ویتنام سے درآمدات بھی 444 ملین ڈالر سے بڑھ کر 578 ملین ڈالر تک پہنچ گئیں۔انہوں نے کہا کہ ویتنام کی کل تجارت میں پاکستان کا حصہ صرف 0.12 فیصد ہے۔ دونوں ممالک کو پہلے مرحلے میں دوطرفہ تجارتی حجم کی سطح کو کم از کم 2 بلین ڈالر تک لے جانے کا ہدف بنانا چاہیے اور خاص طور پر پاکستانی برآمد کنندگان کو ویتنام کی مارکیٹ میں بے پناہ صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ ویتنام کو پاکستان کی اہم برآمدات میں کپاس، پلاسٹک، منجمد مچھلی، کپڑے، ، چمڑا، تیل کے بیج، منجمد گوشت، مکئی، اورفارماسیوٹیکل مصنوعات وغیرہ شامل ہیں۔ دوسری جانب ویتنام سے پاکستان کی درآمدات میں الیکٹرانک آلات، ، کافی، چائے، مصالحے، سمندری غذا، سبزیاں، ربڑ کی مصنوعات، آئرن اور سٹیل وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس ویتنام کو مختلف اشیاءبرآمد کرنے کی بڑی صلاحیت ہے جو وہ دوسرے ممالک سے درآمد کررہا ہے۔ مثال کے طور پر ویتنام کی فیبرکس کی درآمدات تقریباً 4 بلین ڈالر، کوئلہ 3.9 بلین ڈالر، مکئی 2.8 بلین ڈالر، ادویات 2.2 بلین ڈالر، گندم 1.4 بلین ڈالر اور لیدرکی درآمدات 1.1 بلین ڈالر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سمندری خوراک پاکستان کے لیے سب سے زیادہ پوٹینشل ہولڈنگ سیکٹر ہو سکتا ہے۔ اسی طرح پاکستان پراسیس شدہ گوشت، پھل اور سبزیاں ویتنام کو برآمد کر سکتا ہے۔ مزید یہ کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سیاحت کے شعبوں میں تعاون کی زبردست گنجائش موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ویتنام کے درمیان تجارت کو بڑھانے کے لیے نئی راہیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ویتنام آسیان کا فعال رکن ہونے کی وجہ سے پاکستان کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ دونوں ممالک کو آزادانہ تجارتی معاہدے پر دستخط کرنے چاہیے جو پاکستان اور ویتنام کی کاروباری برادریوں کو بہتر مارکیٹ رسائی فراہم کر سکتا ہے۔انہوںن ے توقع ظاہر کی کہ کمرشل سیکشنز قومی چیمبر آف کامرس کے ساتھ مارکیٹ سروے رپورٹس کو باقاعدگی سے شیئر کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ تجارتی وفود کے تبادلے اور سنگل کنٹری نمائشوں کے انعقاد کے ذریعے بھی مطلوبہ اہداف حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں