لاہور(ایم این پی) وزیر مملکت اور چیئرمین ریفارمز اینڈ ریسورس موبلائزیشن کمیٹی اشفاق تولہ نے کہا ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر کے بحران کے پیش نظر جلد از جلد چارٹر آف اکانومی کی ضرورت ہے۔وہ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پر لاہور چیمبر کے صدر کاشف انور اور سینئر نائب صدر ظفر محمود چوہدری نے بھی خطاب کیا۔وزیر مملکت نے کہا کہ ہم کافی عرصے سے چارٹر آف اکانومی کی بات کر رہے ہیں۔ یہ ہمارا خواب ہے جو جلد پورا ہونے والا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیک ہولڈرز کو ICAP کے ساتھ بیٹھنا چاہیے، حل تجویز کرنا چاہیے اور مسائل کو ایک ایک کر کے سامنے لاکر حل کروانے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی سولر انرجی میں سرمایہ کاری کرے تو یہ ملک پر بہت بڑا احسان ہوگا۔ اس وقت امریکہ میں شمسی توانائی کی تنصیب کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ اگر ہماری حکومت مراعات نہیں دے سکتی تو کم از کم مارک اپ کم کر دینا چاہیے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ اس بار آئی ایم ایف کی شرائط بہت سخت ہیں۔ ہم ابھی پوری طرح سے آگاہ نہیں ہیں ۔انہوں نے کہا کہ چیمبرز سمیت بڑے اسٹیک ہولڈرز کو اصلاحات اور وسائل کو متحرک کرنے کے لیے تجویز پیش کرنی چاہیے۔ تمام ایوانوں کو مل کر بیٹھنا چاہیے، چارٹر آف اکانومی اور چارٹر آف بجٹ تیار کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ہم ایف بی آر میں دو دن اسٹیک ہولڈرز کی میزبانی کر سکتے ہیں اور ایف بی آر کی ٹیم کے ساتھ ایک ایک کر کے مسائل پر بات کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے اتفاق کیا کہ متعدد آڈٹ نہیں ہونے چاہئیں، ہم اس مسئلے کو ریفارمز اینڈ ریسورس موبلائزیشن کمیشن کی مدد سے حل کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریونیو اکٹھا کرنا اور کاروبار کرنے میں آسانی دو مختلف چیزیں ہیں۔ “ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی یہ نہ کہے کہ فلاں شخص کم ٹیکس دے رہا ہے اور میں زیادہ ادا کر رہا ہوں”، انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے کتنا ٹیکس ادا کرنا ہے۔ایمنسٹی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس مالیاتی مواد نہیں ہے۔ ہمیں انٹرنیٹ، ڈیجیٹل بینکنگ اور کریڈٹ کارڈز کا استعمال شروع ہوئے کافی عرصہ ہو گیا ہے۔ ہماری معیشت کا بیشتر حصہ نقدی معیشت ہے۔ بہترین ایمنسٹی ڈالر کی صورت ہو سکتی ہے لیکن آئی ایم ایف کی شرائط کے پیش نظر اس کا امکان نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے 100 ملین منفرد صارفین ہیں جو موبائل پر ود ہولڈنگ ٹیکس ادا کرتے ہیں لیکن چونکہ وہ فائل نہیں کر رہے اور ایف بی آر کو بھی ڈر ہے کہ اگر وہ فائل کریں گے تو وہ ریفنڈز کا مطالبہ کریں گے۔ جب کوئی ٹیکس لینے والا آتا ہے تو لوگ ڈر جاتے ہیں جو نہیں ہونا چاہیے۔جہاں تک کاٹن لینڈ کا تعلق ہے، پاکستان میں پیداوار کی شرح دنیا میں سب سے کم ہے۔ کپاس اور گنے کی قیمت بین الاقوامی قیمت کے مطابق ہوگی تو ان پر سبسڈی نہیں دینا پڑے گی۔انہوں نے کہا کہ تاجروں پر ٹیکس لگانا کوئی مسئلہ نہیں ہے، مسئلہ زرعی ٹیکس کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ برآمدات بڑھانے کے لیے ہمارے پاس ایکسپورٹ سرپلس نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ خام مال کے لیے درآمدات پر انحصار ہے کیونکہ ہم نے اپنی زرعی زمین کو ہاو¿سنگ سوسائٹیز میں تبدیل کر دیا ہے۔ ملتان کی ہاو¿سنگ سوسائٹیز کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔وزیر نے کہا کہ ہمارے ہاں ہندوستان میں پانچ لاکھ ٹن سالانہ کے مقابلے گندم کی پیداوار 1.7 ملین ٹن سالانہ ہے۔ یہاں تک کہ آج ہم اپنی پیداوار کو دوگنا کر کے 26 ملین ٹن سالانہ پیدا کرسکتے ہیں جبکہ ہماری ضرورت 36 ملین ٹن سالانہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی پیداواری صلاحیت کو بڑھانا ہے اور مقامی درآمدی متبادل پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں توانائی کی قیمتیں انتہائی زیادہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم درآمدی ایندھن سے بجلی پیدا کر رہے ہیں۔ روپے کی گرتی ہوئی قدر اور امپورٹ بل کی وجہ سے ہمارا بجٹ خسارہ بڑھ رہا ہے۔لاہور چیمبر کے صدر کاشف انور نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ جاری مذاکرات حتمی مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔ہم امید کرتے ہیں کہ سٹاف لیول ایگریمنٹ جلد سائن ہوجائے گا جس سے ملک کی معاشی صورتحال میں کوئی بہتری یا کم از کم ٹھہراﺅ دیکھنے میں آئے گا۔انہوں نے کہا کہ تجارتی خسارے کی وجہ سے ہمیں زرمبادلہ کے بحران کا سامنا ہے ، جس کے نتیجے میں بینک ایل سیز کھولنے سے گریز کررہے ہیں۔ ابھی بھی ہزاروں امپورٹ کنٹینرز پورٹ پر پھنسے ہوئے ہیں،جن پرتاجربرادری کو ہر گزرتے دن ڈٹنشن،ڈیمرج اورپورٹ سٹوریج چارجزپڑرہے ہیں۔ہماری بہت سی صنعتیں درآمدی سامان یا خام مال کی عدم دستیابی او…
زرمبادلہ کے ذخائر کے پیش نظر جلد چارٹر آف اکانومی کی ضرورت ہے: وزیرمملکت
Media Network Pakistan